May 18, 2024

Warning: sprintf(): Too few arguments in /www/wwwroot/rubbernurse.com/wp-content/themes/chromenews/lib/breadcrumb-trail/inc/breadcrumbs.php on line 253

قیس اور لیلیٰ کی شادی کے بعد طلاق ہوگئی، قیس نے اس کے بعد عشق اور

مصری مفتی شیخ علی جمعہ

سابق مفتی مصر شیخ علی جمعہ متنازع بیانات دینے سے باز نہیں آئے ہیں اور انہوں نے ایک اور متنازع بیان دے کر ہنگامہ برپا کردیا ہے۔ وہ اپنے رمضان پروگرام “نور الدین” کی ہر قسط کے بعد تنازع کھڑا کرتے رہتے ہیں۔ اس پروگرام میں وہ بچوں، نوعمروں اور نوجوانوں سے ان کے بے تکلف اور بعض اوقات شرمناک سوالات کے جوابات دیتے ہیں۔

حالیہ قسط میں ایک نوجوان نے شیخ علی جمعہ سے قیس اور لیلیٰ کی طرح شادی سے پہلے کی محبت کے بارے میں ان کی رائے پوچھی تو انہوں نے مزاحیہ انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ “جب قیس نے لیلیٰ سے شادی کی تو اس سب کے بعد اس نے اسے طلاق دے دی تھی۔ اس کے متعلق عشق اور محبت پر نظمیں اس نے بعد میں لکھی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ 1980 سے 1986 کے درمیان یونیورسٹی کے طلبہ کے درمیان تعلقات اور محبت پر کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ طلبہ کی اکثریت یونیورسٹی میں ایک دوسرے سے محبت کرتی تھی اور پھر ان کی شادی ہو گئی۔

کوئی حلال یا حرام نہیں

انہوں نے مزید کہا کہ محبت میں ایسی چیز شامل ہی نہیں جو حلال یا حرام ہو کیونکہ یہ دل کا احساس ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے۔ جہاں تک محبت کے بعد شادی کا معاملہ ہے تو یہ ایک اور معاملہ ہے۔ تاہم ساتھ ساتھ انہوں نے شادی سے قبل کی محبت کے رشتوں کے دوران عفت کو برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔

واضح رہے علی جمعہ نے پچھلی اقساط کے دوران متعدد بیانات دیے تھے جنہوں نے سوشل میڈیا پر بہت سے مصریوں کے درمیان تنازع اور بحث پیدا کردی تھی۔ ایک متنازع بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ جنت صرف مسلمانوں تک محدود نہیں اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی اس میں داخل ہوں گے۔

ایک مرتبہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر لڑکی کے والد کو علم ہو تو لڑکپن کے دوران لڑکی لڑکے کے درمیان تعلقات معمول کی بات ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ لڑکے اور لڑکی کے درمیان دوستی اور ایک گروپ میں اکٹھے باہر جانا منع نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام انسانیت اختلاط کے راستے پر رہی ہے۔ انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ جنسوں کے درمیان دوستی تب تک جائز ہے جب تک کہ یہ پاکیزہ ہو۔

محبت پر لکھا: پروگرام میں اظہار خیال

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *